Wednesday, 8 August 2012

سورۃ الفاتحہ


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)

 اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَۙ﴿۱﴾

سب خوبیاں اللّٰہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۲﴾

بہت مہربان رحمت والا

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِؕ﴿۳﴾

روزِ جزاء کا مالک

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُؕ﴿۴﴾

ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں

اِہۡدِ نَا الصِّرٰطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۵﴾

ہم کو سیدھا راستہ چلا

صِرٰطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ۬ۙ۬

راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا

غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾

نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا




(ف1)
''بِسْمِ اللّٰہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہ وَ نُصَلِیّ عَلیٰ حَبِیْبِہ الکریِم '' سورۂ فاتحہ کے اسماء ، اس 
سورۃ کے متعدد نام ہیں ۔ فاتحہ ، فاتحۃ الکتاب ، اُمُّ القرآن ، سورۃ الکنز ، کافیۃ ، وا فیۃ ، شافیۃ ، شفا ، سبع مثانی ، نور ، رقیۃ ، سورۃ الحمد ، سورۃ الدعا ، تعلیم المسئلہ ، سورۃ المناجاۃ ، سورۃ التفویض ، سورۃ السوال ،  اُمُّ الکتاب ، فاتحۃ القرآن ، سورۃ الصلوۃ ۔ اس سورۃ میں سات آیتیں ستائیس کلمے ایک سو چالیس حرف ہیں کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں ۔


شان نُزول : یہ سورۃ مکّہ مکرّمہ یا مدینہ منوّرہ یا دونوں میں نازل ہوئی ۔ عمرو بن شرجیل سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا میں ایک ندا سنا کرتا ہوں جس میں اِقْرَأ  کہا جاتا ہے ، ورقہ بن نوفل کو خبر دی گئی عرض کیا ، جب یہ ندا  آئے آپ باطمینان سنیں ، اس کے بعد حضرت جبریل نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا فرمائیے '' بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین '' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نُزول میں یہ پہلی سورت ہے مگر دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سورۂ اِقْرَأ نازل ہوئی ۔ اس سورت میں تعلیماً بندوں کی زبان میں کلام فرمایا گیا ہے ۔ 

احکام 
مسئلہ : نماز میں اس سورت کا پڑھنا واجب ہے امام و منفرد کے لئے تو حقیقتاً اپنی زبان سے اور مقتدی کے لئے بقرأتِ حکمیہ یعنی امام کی زبان سے ۔ صحیح حدیث میں ہے  '' قِرَاء ۃُ الاِمَامِ لَہ' قِرَاء ۃٌ '' امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے ۔ قرآنِ پاک میں مقتدی کو خاموش رہنے اور امام کی قرأت سننے کا حکم دیا ہے ۔ '' اِذا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْ ا لَہ' وَ اَنْصِتُوْا ''۔ مسلم شریف کی حدیث ہے '' اِذَاقَرَأ فَانْصِتُوْا '' جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو اور بہت احادیث میں یہی مضمون ہے ۔ 
مسئلہ : نمازِ جنازہ میں دعا یاد نہ ہو تو سورۂ فاتحہ بہ نیتِ دعا پڑھنا جائز ہے ، بہ نیتِ قرأت جائز نہیں (عالمگیری) 
سورۂ فاتحہ کے فضائل
احادیث میں اس سورہ کی بہت سے فضیلتیں وارد ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توریت و انجیل و زبور میں اس کی مثل سورت نہ نازل ہوئی ۔ (ترمذی) ایک فرشتہ نے آسمان سے نازل ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کیا اور دو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے ، ایک سورۂ فاتحہ ، دوسرے سورۂ بقر کی آخری آیتیں ۔ (مسلم شریف) سورۂ فاتحہ ہر مرض کے لئے شفا ہے ۔ (دارمی) سورۂ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگے اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے ۔ (دارمی) 
استعاذہ 
مسئلہ : تلاوت سے پہلے '' اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیم '' پڑھنا سنت ہے ۔ (خازن) لیکن شاگرد استاد سے پڑھتا ہو تو اس کے لئے سنت نہیں ۔ (شامی) 
مسئلہ : نماز میں امام و منفرد کے لئے سبحان سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ الخ پڑھنا سنت ہے ۔ (شامی) التسمیہ 
مسئلہ :'' بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم '' قرآنِ پاک کی آیت ہے مگر سورۂ فاتحہ یا اور کسی سورہ کا جزو نہیں اسی لئے نماز میں جَہر کے ساتھ نہ پڑھی جائے ۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما نماز '' الْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ '' سے شروع فرماتے تھے ۔ 
مسئلہ : تراویح میں جو ختم کیا جاتا ہے اس میں کہیں ایک مرتبہ بسم اللہ جَہر کے ساتھ ضرور پڑھی جائے تاکہ ایک آیت باقی نہ رہ جائے ۔ 
مسئلہ : قرآنِ پاک کی ہر سورت بسم اللہ سے شروع کی جائے سوائے سورۂ برأت کے ۔ 
مسئلہ : سورۂ نمل میں آیتِ سجدہ کے بعد جو بسم اللہ آئی ہے وہ مستقل آیت نہیں بلکہ جزوِ آیت ہے بلا خلاف اس آیت کے ساتھ ضرور پڑھی جائے گی ، نماز جہری میں جہراً سری میں سراً ۔ 
مسئلہ : ہر مباح کام بسم اللہ سے شروع کرنا مستحب ہے ناجائز کام پر بسم اللہ پڑھنا ممنوع ہے ۔ 
سورۂ فاتحہ کے مضامین :
اس سورت میں اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا ، ربوبیت ، رحمت ، مالکیت ، استحقاقِ عبادت ، توفیقِ خیر ، بندوں کی ہدایت ، توجہ الٰی اللّٰہ، اختصاصِ عبادت ، استعانت ، طلبِ رُشد ، آدابِ دعا ، صالحین کے حال سے موافقت ،  گمراہوں سے اجتناب و نفرت ، دنیا کی زندگانی کا خاتمہ ، جزاء اور روزِ جزاء کا مُصرَّح و مُفصَّل بیان ہے اور جملہ مسائل کا اجمالاً ۔ 
حمد 
مسئلہ : ہر کام کی ابتداء میں تسمیہ کی طرح حمدِ الٰہی بجا لانا چاہیئے ۔ 
مسئلہ : کبھی حمد واجب ہوتی ہے جیسے خطبۂ جمعہ میں ، کبھی مستحب جیسے خطبۂ نکاح و دعا و ہر امرِ ذیشان میں اور ہر کھانے پینے کے بعد ، کبھی سنّتِ مؤکّدہ جیسے چھینک آنے کے بعد ۔ (طحطاوی) 
'' رَبُّ الْعَالَمِیْنَ '' میں تمام کائنات کے حادث ، ممکن ، محتاج ہونے اور اللہ تعالٰی کے واجب ، قدیم ، ازلی ، ابدی  ، حی ، قیوم ، قادر ، علیم ہونے کی طرف اشارہ ہے جن کو ربُّ العالمین مستلزم ہے ۔ دو لفظوں میں علمِ الٰہیات کے اہم مباحث طے ہو گئے ۔
'' مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ '' ملک کے ظہورِ تام کا بیان اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک مستحقِ عبادت نہیں ہو سکتا ۔ اسی سے معلوم ہوا کہ دنیا دار العمل ہے اور اس کے لئے ایک آخر ہے ۔ جہان کے سلسلہ کو ازلی و قدیم کہنا باطل ہے ۔ اختتامِ دنیا کے بعد ایک جزاء کا دن ہے اس سے تناسخ باطل ہو گیا ۔
'' اِیَّاکَ نَعْبُدُ '' ذکر ذات و صفات کے بعد یہ فرمانا اشارہ کرتا ہے کہ اعتقاد عمل پر مقدّم ہے اور عبادت کی مقبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے ۔ 
مسئلہ : '' نَعْبُدُ '' کے صیغۂ جمع سے ادا بجماعت بھی مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عوام کی عبادتیں محبوبوں اور مقبولوں کی عبادتوں کے ساتھ درجۂ قبول پاتی ہیں ۔
مسئلہ : اس میں ردِّ شرک بھی ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا عبادت کسی کے لئے نہیں ہو سکتی ۔
'' وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ '' میں یہ تعلیم فرمائی کہ استعانت خواہ بواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ، حقیقی مستعان وہی ہے باقی آلات و خدام و احباب وغیرہ سب عونِ الٰہی کے مَظہَر ہیں ، بندے کو چاہئے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دستِ قدرت کو کارکن دیکھے ۔ اس سے یہ سمجھنا کہ اولیاء و انبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے عقیدہ باطلہ ہے کیونکہ مقربانِ حق کی امداد امدادِ الٰہی ہے  استعانت بالغیر نہیں ، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآنِ پاک میں '' اَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ '' اور '' اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْر وَ الصَّلٰوۃِ '' کیوں وارد ہوتا اور احادیث میں اہلُ اللہ سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ۔ 
'' اِھْدِنَا الصِّراط الَمُستَقِیْمَ'' معرفتِ ذات و صفات کے بعد عبادت ، اس کے بعد دعا تعلیم فرمائی اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ بندے کو عبادت کے بعد مشغولِ دعا ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں بھی نماز کے بعد دعا کی تعلیم فرمائی گئی ہے ۔ (الطبرانی فی الکبیر و البیہقی فی السنن) ۔ 
صراطِ مستقیم سے مراد اسلام یا قرآن یا خُلقِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضور کے آل و اصحاب ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صراطِ مستقیم طریقِ اہلِ سنت ہے جو اہلِ بیت و اصحاب اور سنّت و قرآن و سوادِ اعظم سب کو مانتے ہیں ۔
''صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ '' جملہ اُولٰی کی تفسیر ہے کہ صراطِ مستقیم سے طریقِ مسلمین مراد ہے ، اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں کہ جن امور پر بزرگانِ دین کا عمل رہا ہو وہ صراطِ مستقیم میں داخل ہے ۔ 
'' غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ '' اس میں ہدایت ہے کہ مسئلہ طالبِ حق کو دشمنانِ خدا سے اجتناب اور ان کے راہ و رسم ، وضع و اطوار سے پرہیز لازم ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ '' مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ '' سے یہود اور '' ضَآلِّیْنَ '' سے نصاریٰ مراد ہیں ۔ 
مسئلہ : ضاد اور ظاء میں مبائنت ذاتی ہے ، بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کر سکتا لہٰذا غیر المغظوب بظاء پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریفِ قرآن و کُفر ہے ورنہ ناجائز ۔ 
مسئلہ : جو شخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں ۔ (محیطِ برہانی) 
'' آمِیْنَ'' اس کے معنی ہیں ایسا ہی کریا قبول فرما ۔ 
مسئلہ : یہ کلمۂ قرآن نہیں ۔ 
مسئلہ : سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا سنت ہے ، نماز کے اندر بھی اور نمازکے باہر بھی ۔ 
مسئلہ : حضرت امامِ اعظم کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں آمین اخفا ء کے ساتھ یعنی آہستہ کہی جائے ، تمام احادیث پر نظر اور تنقید سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جَہر کی روایتوں میں صرف وائل کی روایت صحیح ہے اس میں '' مَدَّ بِھَا '' کا لفظ ہے جس کی دلالت جَہر پر قطعی نہیں جیسا جَہر کا احتمال ہے ویسا ہی بلکہ اس سے قوی مد ہمزہ کا احتمال ہے اس لئے یہ روایت جَہر کے لئے حُجّت نہیں ہو سکتی ، دوسری روایتیں جن میں جَہر و رفع کے الفاظ ہیں ان کی اسناد میں کلام ہے علاوہ بریں وہ روایت بالمعنی ہیں اور فہمِ راوی حدیث نہیں لہذا  آمین کا آہستہ ہی پڑھنا صحیح تر ہے ۔




0 comments:

Post a Comment